19 اگست 2024 - 00:36
اربعین سنہ 61ھ، پر مختلف قسم کے اعتراضات کے مختصر جوابات

شہید آیت اللہ سید محمد بن علی قاضی طباطبائی (رحمہ اللہ) اپنی کتاب "تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام)" میں ان تمام اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے جو صفر المظفر سنہ 61ھ کو اسیران آل رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے کربلا میں آنے کے مشہور روایت کی مخالفت میں وارد ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول کہ ـ شام میں اہل بیت (علیہم السلام) نے ایک مہینے تک قیام کیا ہے اور اس کے بعد کربلا روانہ ہوئے ہیں ـ کسی دلیل پر استوار نہیں ہے؛ کیونکہ نہ تو [۔۔۔]

سوال:

اربعین سنہ 61ھ، پر مختلف قسم کے اعتراضات ہوئے ہیں، اختصار کے ساتھ جواب دیں، شکریہ۔

جواب:

شہید آیت اللہ سید محمد بن علی قاضی طباطبائی (رحمہ اللہ) اپنی کتاب "تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام)" میں ان تمام اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے جو صفر المظفر سنہ 61ھ کو اسیران آل رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے کربلا میں آنے کے مشہور روایت کی مخالفت میں وارد ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول کہ ـ شام میں اہل بیت (علیہم السلام) نے ایک مہینے تک قیام کیا ہے اور اس کے بعد کربلا روانہ ہوئے ہیں ـ کسی دلیل پر استوار نہیں ہے؛ کیونکہ نہ تو اس کا راوی معلوم ہے اور نہ اس کی روایت واضح ہے اور سید علی بن موسیٰ بن طاؤس (رحمہ اللہ) نے اقبال الاعمال میں اس کو صرف ایک احتمال کے طور پر نقل کیا ہے لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے؛ چنانچہ اس سے استناد اور اس پر اعتماد، نہيں کیا جاسکتا۔ [1]

محدث حاج میرزا حسین نوری (رحمہ اللہ) نے کتاب "اللؤلؤ والمرجان" میں اربعین سنہ 61ھ میں اہل بیت (علیہم السلام) کے کربلا آنے کی نفی کے حوالے سے متعدد دلائل ذکر کی ہیں جن کا جواب مرحوم شہید آیت اللہ سید قاضی طباطبائی (رحمہ اللہ) نے دیا ہے۔ مثال کے طور پر بعض نمونے یہاں پیش کئے جاتے ہیں:

1۔ اتنی قلیل مدت میں اتنی طویل مسافت طے کرنا، ممکن نہیں ہے!

جواب: 

اربعین سنہ 61ھ کی نفی کے لئے سب سے اہم دلیل جو پیش کی جاتی ہے، یہی ہے۔ جناب شہید قاضی (رحمہ اللہ) کہتے ہیں: ہمیں ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ثابت کیا جا سکے کہ شام اور عراق کا درمیانی راستہ طے کرنے میں طویل عرصہ لگتا تھا، کیونکہ قاصد ایک ہفتے کے عرصے میں شام سے عراق اور کوفہ کا راستہ طے کیا کرتا تھا؛ یہی نہیں بلکہ بغداد اور مکہ مکرمہ کا راستہ 10 دن سے کم عرصے میں طے کیا جاتا تھا۔ ذیل کی مثالوں پر غور کیجئے:

الف۔ ہارون الرشید عباسی اور ابو حنیفہ نعمان ابن ثابت ذوالحجہ کا چاند بغداد میں دیکھتا تھا اور حج کے لئے مکہ پہنچتا تھا۔ [2] یعنی اس طویل مسافت کو 10 دن سے کم عرصے میں طے کیا جاتا تھا۔

ب۔ خیران اسباطی امام علی نقی الہادی (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ انھوں نے عراق سے مدینہ کا فاصلہ 10 روز میں طے کیا ہے۔ [3]

ج۔ مالک اشتر 10 روز سے کم مدت میں مدینہ سے کوفہ پہنچے۔ [4]

د۔ یحییٰ بن ہرثمہ کہتا ہے: ہم حجاز میں تموز کی گرمی سے گذر رہے ہیں اور  ہمارے اور عراق کے درمیان 10 روز کا فاصلہ ہے۔ [5]

ہ۔ خلیفہ ابوبکر کے دور میں رومیوں کے ساتھ جنگ سے متعلق منقولہ روایت میں ہے کہ خالد بن ولید مسلمانوں کا ایک عظیم لشکر لے کر آٹھ دن کی مدت میں محاذ جنگ میں مسلمانوں کی مدد کو پہنچا۔ [6]

و۔ کتاب قرة العین فی اخذ ثار الحسین (علیہ السلام) منقول ہے کہ مروان بن حکم نے عامر بن ربیعہ کو ایک لاکھ کا لشکر دے کے مختار کے خلاف جنگ کے لئے عراق روانہ کیا۔ اور شامی لشکر 10 دن کی مدت میں کوفہ پہنچا۔ [7]

ز۔ جمعہ کا دن تھا جب میثم تمار نے فرات کے کنارے معاویہ کی موت کی خبر سنی اور کہا گیا کہ یہ واقعہ آٹھ روز قبل رونما ہؤا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو قاصد یہ خبر لے کر آیا تھا وہ شام سے عراق آیا تھا اور وہاں سے مدینہ جا رہا تھا۔ [8]

یہ صرف چند نمونے ہیں جو 10 دن یا اس سے بھی کم عرصے میں اہل بیت (علیہم السلام) کے شام سے کربلا پہنچنے کے اثبات کے لئے پیش کئے گئے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) 10 دن یا اس سے کم عرصے تک شام میں رہے ہیں اور وہاں سے روانہ ہوکر پہلے اربعین (یعنی 20 صفرالمظفر سنہ 61ھ) کو کربلا پہنچے ہیں۔

2۔ شیخ مفید سمیت بعض مؤرخین اور مقاتل نگاروں نے پہلے اربعین میں اہل بیت (علیہم السلام) کی کربلا واپسی کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے!

جواب:

اول: اگر کسی نے کوئی واقعہ بیان نہ کیا ہو تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ واقعہ رونما ہی نہیں ہؤا ہے۔

دوئم۔ اگر مؤرخین نے یہ واقعہ نقل نہیں کیا ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انہوں نے سنہ 61ھ کو اربعین کا انکار نہیں ہے۔ [9]

3۔ عماد الدین ابوالقاسم طبری آمُلی نے "بشارۃ المصطفیٰ لشيعۃ المرتضیٰ"، میں لکھا ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری (رضی اللہ عنہ) نے اس روز اہل بیت (علیہم السلام) کو کربلا میں نہيں دیکھا۔

جواب: 

بشارۃ المصطفیٰ کے جس نسخے سے یہ جملہ نقل کیا گیا ہے، ناقص اور ناقابل اعتماد ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے مقاتل نے یہ جملہ ذکر کیا ہے اور واقعۂ کربلا کے مشہورات میں سے ہے، چنانچہ ایک مقتل کی نقل کو بہانہ بنا کر اس کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ [10]

4۔ اہل بیت (علیہم السلام) کوفہ سے شام جاتے ہوئے "سلطانی راستے" (یا شاہراہ) سے گذرے ہیں: یعنی تکریت سے موصل، نصیبین اور حلب سے گذر کے دمشق گئے ہیں؛ چنانچہ اس راستے سے شام پہنچنے کے لئے کافی وقت درکار تھا۔

جواب: یہ قول بھی قابل قبول و اعتنا نہیں ہے کیونکہ یہ ان اقوال کے منافی ہے جو مقاتل اور تاریخی اسناد میں نقل ہوئے ہیں۔ [11]

5. اگر امام سجاد (علیہ السلام) اور جابر (رضی اللہ عنہ) ایک ہی وقت کربلا پہنچے ہیں تو جابر سیدالشہداء (علیہ السلام) کے پہلے زائر کیوں کہلاتے ہیں، حالانکہ امام سجاد (علیہ السلام) کی منزلت جابر (رضی اللہ عنہ) سے بالاتر ہے۔

جواب: 

ممکن ہے کہ جابر اہل بیت (علیہم السلام) کے کربلا پہنچنے سے قبل زیارت کے لئے آئے ہوئے ہوں اور اپنے ساتھی عطیہ کے ہمراہ زیارت امام حسین (علیہ السلام) کا شرف حاصل کیا ہو اور بیت (علیہم السلام) ان کے بعد اور اسی دن زیارت کے بعد اہل بیت (علیہم السلام) زیارت کے لئے پہنچے ہوں۔ [12]

6۔ یزید اجازت نہیں دے رہا تھا کہ اسرائے اہل بیت (علیہم السلام) آسانی سے کربلا جائیں اور مدینہ جانے میں تاخیر کریں!

جواب: 

یزید بن معاویہ نے نعمان نامی شخص کو حکم دیا کہ اہل بیت (علیہم السلام) کو پہنچا دے اور مزید رسوائی سے بچنے کے لئے کہا تھا کہ ان کا لحاظ رکھے اور ان کی خواہشوں کا مثبت جواب دے اور ان کو اذیت و آزار پہنچانے سے باز رہے۔ یہ قول مؤرخین کے درمیان معروف و مشہور ہے [13] چنانچہ یہ قول درست نہیں ہے کہ یزید انہیں کربلا جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ [14]

۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:


[1]۔ تحقیق درباره اول اربعین سید الشهداء. (علیہ السلام) شہید آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی، ص45۔

[2]۔ وہی ماخذ، ص45۔

[3]۔ الارشاد، شیخ مفید (محمد بن محمد)، ص345۔

[4]۔ تحقیق دربارہ اول اربعین سید الشہداء (علیہ السلام) ص، شہید قاضي طباطبائی، 50۔

[5]۔ الخرائج و الجرائح، قطب راوندی، (سعید بن ہبۃ اللہ راوندی کاشانی)، ص209۔

[6]۔ تاریخ یعقوبی، ابن واضح، احمد بن اسحاق، ج2، ص112۔

[7]۔ قرۃ العین فی أخذ ثأر الحسین (علیہ السلام)، ابو عبداللہ، عبداللہ بن محمد، ص127۔

[8]۔ عبداللہ بن محمدحسن مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج3، ص262۔

[9]۔ تحقیق دربارہ اول اربعین سید الشہداء (علیہ السلام)، ص153۔

[10]۔ تحقیق دربارہ اول اربعین سید الشہداء (علیہ السلام)، شہید قاضی طباطبائی، ص181۔

[11]۔ وہی ماخذ، ص221۔

[12]۔ وہی ماخذ، ص275۔

[13]۔ وہی ماخذ، ص277۔

[14]۔ مزید شبہات اور اعتراضات اور ان کے جوابات سے حاصل کرنے کے لئے دیکھئے: شہید آیت اللہ قاضی کتاب: "دربارہ اول اربعین سید الشہداء (علیہ السلام)  صفحہ 150 سے صفحہ 277 تک۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔